میں کون ہوں؟ اس سوال کا جواب شاید آدمی کے ذریعے پوچھے جانے والے کسی بھی سوال سے زیادہ آسان ہے ۔ اور ساتھ ہی اور جلدی سے یہ بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ اس سوال سے زیادہ کٹھن کسی اور سوال کا جواب بھی نہیں ۔ آسان تر بھی یہی ہے اور کٹھن تر بھی یہی ہے ۔ آسان اس لئے ہے کہ جو ہم ہیں اگر اس کا سوال بھی حل نہ ہوسکے اگر اس کا جواب پانا بھی آسان نہ ہوتو پھر اس دنیا میں اور سوال کا جواب آسان نہیں ہوسکتا جو میں ہوں اگر میں اسے بھی نہ جان سکوں تو میں اور کسے جان سکوں گا ۔ کسی بھی دوسرے کو میں صرف باہر سے واقف ہوسکتا ہوں پر جان نہیں سکتا ۔ اوپری طور پر پہچان ہوسکتی ہے کیونکہ میں سدا دوسروں کے باہر ہوں ۔ میں کبھی دوسروں کے اندر داخل نہیں ہوسکتا ہوں ۔ میں کتنا ہی دوسرو ں کے ارد گرد گھوموں پر باہر ہی گھومتا رہوں گا ۔ میں دوسروں سے واقف ہوسکتا ہوں ۔لیکن دوسروں کا علم کبھی بھی نہیں ہوسکتا ۔ اگر میرا ہی علم ممکن نہ ہو اور آسان نہ ہو تو اور آسان کیاہوگا ۔ اگر خود کا علم کٹھن ہے تو پھر لا علمی کے علاوہ کچھ بھی آسان نہیں ہوسکتا اگر خود کا علم کٹھن ہے تو اس دنیا میں اور کسی بات کو جاننے کا تو خیال و خواب بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ خود کا علم بہت آسان ہے اس لئے بھی کہتا ہوں کہ خود کو جاننے کے لئے کہیں بھی تو جانا نہیں پڑتا کوئی سفر نہیں کرنا پڑتا خود کو کھوجنے کے لئے مجھے کہیں پہنچنا نہیں ہے ۔ میں وہاں ہوں ہی ۔ خود کو جاننے کے لئے مجھے کچھ کھودنا بھی نہیں ہے کچھ بنانا بھی نہیں ہے میں بنا ہوا ہی ہوں ۔ اس لئے خود کو جاننا آسان تر ہے لیکن میں نے کہا جلدی سے یہ بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ خود کو جاننے سے زیادہ کٹھن بات بھی اور کچھ نہیں ہے ۔ یہ کیوں ؟یہ اس لئے چونکہ ہم خود ہیں اس لئے ہماری جاننے کی لہر اور سب
جگہ بھٹکتی رہتی ہے پر خود پر کبھی نہیں آتی ۔ آنکھیں دوسروں کو تو دیکھ لیتی ہیں پر آنکھ خود اپنے کو نہیں دیکھ پاتی ۔میں اپنے ہاتھوں سے دوسروں کو پکڑ سکتا ہوں پر اپنے ہاتھ سے ہاتھ کو نہیں پکڑ سکتا ہوں ۔ ایک چمٹے سے ہم سب کچھ پکڑ سکتے ہیں صرف اس چمٹے کو نہیں پکڑ سکتے ۔ پر یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک چمٹا سب کو پکڑ لیتا ہے صرف اپنے کو چھوڑ کر اپنے کو پکڑنے میں چمٹا مجبور ہوجاتا ہے ۔ آنکھ سب کو دیکھ لیتی ہے صرف اپنے کو چھوڑ کر اگر ہم پوری کوشش کریں کہ آنکھ سے ہی آنکھ کو دیکھنے کی تو یقینی طور پر ناکامیاب ہوں گے ۔ ہاں ! کسی آئینے میں دیکھ سکتے ہیں لیکن وہ ہم آنکھ کو نہیں دیکھ رہے بلکہ آنکھ کے عکس کو دیکھ رہے ہیں ۔ آنکھ دوسری چیز ہے اور عکس دوسری چیز ۔ آنکھ سب کو دیکھ سکتی ہے ۔ دیکھنا بڑی آسان بات ہے آنکھ کے لئے دیکھنے سے زیادہ آسان کیا ہوگا ۔ لیکن خود کو ہی دیکھنا سب سے زیادہ کٹھن ہے ۔ ’’ خیال رہے‘‘ جو ہمارے پاس نہیں ہے اس پر نظر جاتی ہے اور جو ہمارے پاس ہے ہم اس کو بھول جاتے ہیں ۔بھول ہی جاتے ہیں اور ہم ہمارے پاس ہمیشہ سے ہی ہیں ازل سے ہیں ایسا کبھی بھی نہ تھا کہ ہم اپنے پاس نہ رہے ہوں تو ہم بھول ہی گئے ہیں ۔خود کو پر نہ معلوم کب سے ؟خود کو بھول گئے ہیں ۔ جو چیز پاس ہو وہ چیز ہم بھول جاتے ہیں ۔ جس کے پاس دولت ہو وہ دولت کو بھول جاتا ہے صرف غریب کو دولت یاد رہتی ہے کیونکہ اس کے پاس دولت نہیں ہے ۔ صحت مند آدمی صحت کو بھول جاتا ہے صرف بیمار آدمی کوصحت یاد رہتی ہے کیونکہ اس کے پاس صحت نہیں ۔ کبھی صحت مند آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ صحت ہے اگر کسی کو پتہ چلتا ہو تو جان لینا وہ آدمی بیمار ہے بیمار کو ہی شعور ہوتا ہے کہ صحت ہے صحت مند کو نہیں ہوتا ۔ جو ہمارے پاس ہے وہ بھول جاتا ہے اور جو ہمارے پاس نہیں ہے وہ کھٹکتا رہتا ہے وہ دکھائی پڑتا ہے اسی لئے تو جو ہم مانگتے ہیں جب تک نہیں ملتا تب تک ہی یاد میں رہتا ہے اور جب مل جاتا ہے تو بے کار ہو جاتا ہے ۔ ایک آدمی دولت تلاش کرتا ہے اور دولت پا لیتا ہے وہ سوچتا تھا کہ دولت پالونگا تو نہ جانے کیا مل جائے گا پر
دولت ملتے ہی کچھ بھی نہیں ملتا دولت بھی بھول جاتا ہے جو ہمارے پاس ہے وہ ہم بھول جاتے ہیں ۔ اور ’’ ہم سے زیادہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔‘‘ نہ دولت ہو سکتا ہے نہ مکان ہوسکتا ہے نہ عاشق ہوسکتا ہے ہم سے زیادہ ہمارے پاس کوئی بھی نہیں اور ہم سدا سے ہمارے پاس ہیں ۔ ایسا کبھی نہ ہوا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ہم خود سے الگ ہوئے جدا ہوئے ہوں اس لئے خود کو یاد کرنا خود کو جاننا بہت کٹھن ہے اور اس لئے بھی کٹھن ہے کہ جاننے کے لئے ’’دو ‘‘ (۲)کی ضرورت ہے ایک وہ جو جاننے والا ایک جو جانا جائے ۔ جاننے کے لئے کم سے کم ’’دو‘‘ تو چاہیے جیسے میں آپ کو جان سکتا ہوں کیونکہ آپ میں اور مجھ میں ایک فاصلہ ہے ہم دو ہیں ہم سورج کو جان سکتے ہیں ہم چاند کو جان سکتے ہیں یہ کہ دونوں کے بیچ فاصلہ ہے اور دو ہیں کیونکہ جو جانا جارہا ہے وہ الگ ہے اور جانے والا الگ ہے پر خود کو جاننے میں ایک مصیبت یہ ہے کہ یہاں خود کو جاننے والا بھی وہی ہے اور جس کو جانا جائے وہ بھی وہی ہے یعنی ایک ہیں اس لئے یہ سب سے کٹھن ہے ۔یہ کیسا ہے ؟ جیسے عاشق بھی آپ ہیں اور معشوق بھی آپ پھر مشکل سمجھ میں آسکتی ہے ۔ اگر آپ کو اکیلے کمرے میں چھوڑ دیا جائے اور کہا جائے کہ عاشق بھی آپ ہیں اور معشوق بھی آپ ۔ اب عشق بھی آپ دیں اور عشق بھی آپ لیں آپ اکیلے ہی کمرے میں چھوڑ دیئے گئے ہیں آپ یا تو پاگل ہوجائیں گے یا باہر آکر کہیں گے کہ عشق کے کھیل سے مجھے معاف کرنا میں یہ نہیں کرنا چاہتا ہوں جیسے کوئی خود کو ہی محبت کرنے میں غصے میں پڑ جائے ویسے ہی میں کون ہوں؟ اس سوال کی جو تلاش میں جانے والا آدمی مشکل میں پڑ جاتا ہے وہاں دو نہیں ہیں وہاں ایک ہی ہے وہاں وہی ہے صرف اکیلا ہی ہے اسی کو جاننا ہے اسی کو جانا بھی جانا ہے اسی کو شاہد بھی بننا ہے اسی کو مشہود بھی بننا ہے ۔ یہ سب سے زیادہ کٹھن بات ہے ایک ہی چیز کا ایک ساتھ شاہد و مشہود بننا بڑا مشکل معاملہ ہے اس کا مطلب ہے ایک ہی لمحہ میں میں وہاں بھی کھڑا ہو جاؤں جہاں Objectبن جاؤں اور وہاں بھی کھڑا ہوجاؤں جہاں
بن جاؤں ۔ ایک ہی ساتھ ایک ہی لمحہ میں دو جگہ کیسے کھڑا ہوسکتا ہے ۔ جاننے والا بنتا ہوں تو جاننے کے لئے کچھ بھی نہیں رہتا اور اگر جس کو جانا جانے والا ہے وہ بن جاؤں تو جاننے کو کوئی نہیں بچتا ۔ اس لئے میں نے کہاکہ اس سے زیادہ کٹھن کوئی سوال نہیں اور اس سے زیادہ آسان بھی کوئی سوال نہیں اور جو سوال آسان بھی ہو اور کٹھن بھی ہو ایک ساتھ اس سوال کے لئے کہا جائے اسے کٹھن کہا جائے یا آسان کہا جائے یہ دونوں باتیں ایک ساتھ ہیں ۔ اور آپ کہیں گے کہ ایسا تو ہوتا نہیں ۔ یہ دونوں الٹی باتیں ایک ساتھ کیسے ہو سکتی ہیں ؟ میں آپ سے کہتا ہوں جو نہیں جانتے وہ یہی کہیں گے اور جو جانتے ہیں وہ حیران ہوکر کہیں گے کہ دنیا میں سبھی الٹی باتیں ایک ساتھ ہی ہوتیں ہیں ۔ ہم نے صرف آسانی کے لئے تمام مخالف چیزوں کو توڑ لیا ہے ۔ مخالف چیزیں کہیں بھی ٹوٹی ہوئی نہیں ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ رات الگ ہے دن الگ ۔ کہاں ہے ؟ الگ؟ کس جگہ ہے الگ؟ کون سی حدِ تعین ہے ؟ جہاں رات الگ ہے دن الگ ۔رات ہی دن بن جاتا ہے دن ہی رات بن جاتی ہے ۔ہم کہتے ہیں کہ اندھیرا اجالا الگ ہیں ۔ کس نے کہا ہے ؟ کسی نا سمجھ نے کہا ہوگا اندھیرے اور اجالے کے درمیان صرف ڈگری کا فاصلہ ہے ہم کہتے ہیں کہ پیدائش اور موت الگ ہے پر جھوٹی ہے یہ بات ، پیدائش ہی موت بن جاتی ہے اور موت ہی پیدائش دونوں الگ نہیں ہیں ایک ہی چیز کی ترقی ہے ذرا بتاؤ کب آتی ہے موت ، پیدائش ہی ترقی کرتے کرتے موت بن جاتی ہے اور جو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ موت ہی بڑھتے بڑھتے پیدائش بن جاتی ہے ۔ پیدائش و موت دو الگ چیزیں نہیں ہیں مگر جاہلوں نے دو بنا رکھی ہیں ۔ ایک اور چھوٹی سی چیز کی مثال لیں کہ گرم اور ٹھنڈا اور سمجھتے ہیں کہ دو الگ چیزیں ہوں گی ۔ تو بڑا غلط سمجھتے ہیں ۔ ایک دن چھوٹا سا عمل کریں کہ ایک ہاتھ کو برف پر رکھیں اور دوسرے ہاتھ کو آگ کے قریب گرم کریں پھر دونوں ہاتھوں کو ایک پانی سے بھرے ہوئے برتن میں ایک ساتھ ڈال دیں اور تب آپ کو بڑی حیرانی ہوگی کہ
ایک ہاتھ کو وہ پانی گرم لگے گا اور دوسرے ہاتھ کو وہ پانی ٹھنڈا لگے گا ۔ وہ پانی بالکل ایک ہے ایک ہی برتن میں بھرا ہے تب آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ گرم اور ٹھنڈا دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ گرم اور ٹھنڈا ایک ہی چیز کے درمیانی ڈگری کا فاصلہ ہے ۔ زندگی میں جہاں جہاں ہمیں ضد و مخالفت دکھائی پڑتی ہے وہاں وہاں ضد و مخالفت نہیں ہوتی ۔ زندگی میں مخالفت ہے ہی نہیں چونکہ زندگی بہت الجھ جائے گی اس لئے ہم اسے صاف ستھرا کرنے کے لئے اسے توڑ دیتے ہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں اور کہتے ہیں گرمی الگ ہے ٹھنڈ الگ ہے ۔ کہتے ہیں برُا آدمی الگ ہے اچھا آدمی الگ ہے ۔جھوٹی ہے یہ بات نہ کوئی برا آدمی الگ ہے نہ کوئی اچھا آدمی الگ ہے برے سے برُا آدمی اچھے سے اچھے آدمی سے جڑا ہے ۔ ٹھنڈ اور گرمی کی طرح ایک ہی چیز کی دو ڈگری ہے اور کوئی حدِ فاصلہ نہیں ۔ ان کے بیچ ایک ہی چیز کا پھیلاؤ ہے ۔ دو چیزیں نہیں ۔ نہ کوئی برُی روح ہے نہ کوئی اچھی روح ہے بس ایک ہی چیز کی دو صورت ہیں لیکن ہم نے ہر چیز کو توڑ رکھے ہیں اور توڑنے سے بالکل جھوٹی دنیا بنا رکھی ہے اور اس جھوٹی دنیا کی وجہ سے سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ زندگی کا جب بھی اصلی سوال پیدا ہوگا وہاں ہمیشہ الٹی چیزیں ساتھ ہوں گی ۔ حالانکہ کہیں بھی کچھ الٹا نہیں پھر ہماری سمجھ بہت کم ہے ہم ہر چیز کو ٹکڑے ٹکڑے میں ہی سمجھ پاتے ہیں اس لئے مصیبت ہوجاتی ہے جیسے کوئی ایک بڑا مکان ہو اور اس مکان میں ایک چھوٹا سا چھید ہو اس چھید میں سے اگر جھانک کر دیکھیں تو آپ کو پورا مکان ایک ساتھ دکھائی نہیں پڑے گا ۔ پہلے ایک چھوٹا سا ٹکڑا دکھائی پڑے گا پھر کرسی دکھائی پڑے گی پھر آپ کی آنکھ آگے گئی پھر آپ کو ایک پھولوں کا برتن دکھائی پڑتا ہے پھر آپ کی آنکھ اور آگے گئی آپ کی آنکھ کو ایک تصویر دکھائی پڑتی ہے اور آگے گئی تو کچھ اور دکھائی پڑتا ہے ۔ آپ نے اس کمرے کو چار ٹکڑوں میں توڑ توڑ کر دیکھا جس سے دیکھنے کی قوت بہت چھوٹی ہوگئی وہ کمرا ایک ہی ہے وہاں کہیں چار ٹکڑے نہیں ۔ جو آدمی کمرے
کے اندر چلا جائے وہ کہے گا کہ کمرا ایک ہے لیکن آپ نے اسے چار ٹکڑوں میں دیکھا کیوں کہ آپ باہر سے دیکھ رہے ہیں اور دیکھنے کی قوت بہت کم ہے ۔ اس لئے تھوڑا تھوڑا کرکے دیکھ رہے ہیں ۔ آپ کے پیمانے چھوٹے ہیں زندگی بہت بڑی ہے اور ہم اتنی بڑی زندگی کو اکٹھا لے تو ہم بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے ۔ اگر ہم بد اور نیک کو ایک ساتھ لیں تو ہماری بڑی مصیبت ہوجائے گی ہم تو نیک کو الگ مانتے ہیں اور بد کو الگ جانتے ہیں ۔ تب ہم کو آسانی لگتی ہے ۔ خود ساختہ بنائے ہوئے قائدے کہتے ہیں کہ ’ الف ‘ کبھی ’ ب ‘ نہیں بن سکتا اور’ ب‘ کبھی الف ، نہیں بن سکتا اور اس سے زیادہ غلط بات دنیا میں کبھی نہیں کہی گئی اس سے زیادہ اثر انداز بات کبھی نہیں کہی گئی اس طرح کی بے ساختہ بات کا اثر ساری دنیا پر حاوی ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ ’ الف ‘ الف‘ بھی ہے اور ’ الف‘ ’ ب‘ بھی ہے ۔ زندگی تو یہی ہے ۔ جسے آپ خزاں کہتے ہیں وہ بہار کی ہی دوسری شکل ہے جسے آپ بوڑھاپا کہتے ہیں وہ بچپن ہی کی دوسری تصویر ہے ۔ جسے آپ بد صورتی کہتے ہیں وہ خوبصورتی کا ہی دوسرا رخ ہے جسے آپ غم کہتے ہیں وہ خوشی کی ہی دوسری چوٹ ہے جسے آپ عزت کہتے ہیں وہ بے عزتی کا دوسرا راستہ ہے یہاں زندگی میں سب جڑا ہے یہاں الگ الگ ٹکڑے ٹکڑے کچھ بھی نہیں اور اگر یہ بات خیال میںآجائے تو یہ بات بھی خیال میں آجائے گی کہ جو سوال سب میں آسان ہے وہ سوال سب میں زیادہ مشکل کیوں ؟اس بات کو ایک چھوٹی سی حکایت کے ذریعے سمجھئے ۔ ایک دن ایک فقیر مسجد کے مینار کے نیچے سے گزر رہا تھا مینار کے اوپر موذن اذان دے رہا تھا کہ اچانک وہ گر پڑا اور اس فقیر کے کندھوں پر گرا اس فقیر کی گردن ٹوٹ گئی اس فقیر کو اسپتال میں بھرتی کیاگیا اس فقیر کے کچھ عقیدت مند اس سے ملنے اسپتال آئے ۔ ان عقیدت مندوں میں سے ایک نے اس فقیر سے پوچھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس فقیر کی یہ عا دت تھی کہ زندگی میں چاہے کچھ بھی ہوجائے ان سے کچھ نہ کچھ نتیجہ لیتا تھا ۔ اس لئے پوچھا گیا کہ ہم بڑی مشکل میں ہیں ایک