’’ بس تیرا ذکر کرتا رہوں میں‘‘ قرآن مجید و حدیث مبارکہ میں جگہ جگہ ذکر کی اہمیت اس کی بزرگی اس کی عظمت کو بیان کرکے ذکر کی رغبت دلائی گئی کہ ذکر کرنے کو ایمان کی علامت اور ذکر سے غفلت اور سستی کو ناشکری اور کفر کی نشانی کی وعید سنائی گئی۔صحابہ کرام و اولیاء کرام کے اقوالِ زریں و عملی زندگی جس کا زندہ نمونہ ہیں۔ اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ ترجمہ: خبر دار ہوجاؤ اللہ ہی کے ذکر میں دلوں کا سکون ہے ۔ (سورۂ رعد آیت ۲۸) آج دنیا کے تقریباً لوگ اضطراب قلب و ذہنی تناؤ میں مبتلا ہیں ۔ اس بیماری کے پیشِ نظر میڈیکل سائنس نے بے شمار ایسی دوائیاں ایجاد کی ہیں جس کے استعمال سے وقتی طور پر راحت نصیب ہوسکتی ہے مگر دوسری طرف اس دوا کے کثرت استعمال سے مضیر اثرات دامن گیر ہوجاتے ہیں ۔ ’’اِدھر تدبیر کرتے ہیں اُدھرتقدیر ہنستی ہے‘‘ وقت و پیسے کی بربادی کے ساتھ ساتھ صحت کی خرابی بھی حاصل جمع ہوجاتی ہے ۔ مگر قربان جائیے الرحم الرحمین پر جس نے ہر درد کی دوا اور ہر پریشانی کا حل اپنے مقدس و برتر نسخۂ کیمیاء اثر ’’ذکر‘‘ میں پوشیدہ رکھا ہے یہ اطمینانِ قلب کی دولت جس کو میسر ہوجائے سمجھو وہ غنی ہوگیا ۔ یہ اطمینانِ قلب اور کامل یکسوئی ہی تھی جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پیر سے بحالتِ نماز تیر نکالے جائیں اور آپ کو مطلق خبر نہ ہو ۔ اس نسخۂ ذکر کے متعلق ارشاد خداوندی ہے’’ ذکر اً کثیراً‘‘ یعنی زیادہ سے زیادہ ذکر کیا کرو ۔ جس کے کوئی مضیر اثرات نہیں بلکہ کثرتِ ذکر سے مفیدنتائج برآمد ہوں گے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکْرًا کَثِیۡرًا وَّ سَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ترجمہ : اے ایمان والوں اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بولو۔ (سورۂ احزاب آیت ۴۲۔۴۱) اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک اور جگہ فرماتا ہے۔ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللہُ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیۡمًا (سورۂ احزاب آیت ۳۵) ترجمہ : اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور اجرِ عظیم تیار کررکھا ہے۔ ایک مومن مرد اور عورت کے لئے اس سے حسین تحفہ کیا ہوگا کہ جسے مغفرت کی بشارت مل جائے اور دنیا میں سکونِ قلب و تسکینِ جاں نصیب ہو ،یہاں ذکر میں کثرت آرہی ہے اور وہاں نعمتوں میں کثرت آرہی ہے ۔ ’سبحان اللہ ‘۔ فَاذْکُرُوا اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِکُمْ ترجمہ : پس اللہ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے۔ (سورۂ النساء آیت ۱۰۳) حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر فرض کی ایک حد معین فرمائی سوائے ذکر کے اس کی کوئی حد نہ رکھی فرمایا ذکر کرو کھڑے بیٹھے کروٹوں پر لیٹے رات میں ہو یا دن میں خشکی میں ہو یا تری میں سفر میں اور حضر میں غناء میں اور فقر میں تندرستی اور بیماری میں پوشیدہ اور ظاہر۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے۔’’ جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پرلیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں کہ اے رب ہمارے لئے تو نے یہ بے کار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔ (سورۂ عمران آیت ۱۹۱ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کوئی فرشتہ حالتِ قیام میں کررہا ہے ۔ کوئی فرشتہ حالتِ رکوع میں تو کوئی فرشتہ حالتِ سجود میں نیز عالم میں کل مخلوقات انہیں تین حالتوں میں ذکر کررہے ہیں مگر حضرتِ انسان صاحبِ ایمان کو اللہ تعالیٰ نے تینوں حالتوں میں ذکر کرنے کی قوت بخشی ہے ۔ یہ شرف ہی انسان کو کل مخلوقات پر اشرف بناتا ہے غرض انسان کی پوری زندگی انہیں تینوں حالتوں سے گزرتی ہے ۔ بوقتِ پیدائش کروٹوں پر لیٹا رہتا ہے ، کچھ مہینے بعد بیٹھنے لگتا ہے ‘پھر کچھ اور مہینے بعد اپنے پیروں پر کھڑے ہونے لگتا ہے ‘۔ آخر کار اسی حالتِ اوّل کی طرف آجاتا ہے ۔ یعنی فوت ہونے کے بعد پھر دوسری زندگی کی شروعات بھی اسی طرح ہوگی کہ قبر میں لیٹایا جائیگا پھر حشر میں سب قیام کی حالت میں ہوں گے اور پھر اللہ کی دہشت و جلال سے لوگ گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے ۔ اگر بندہ تینوں حالتوں میں دم بدم اس کا ذکر کرتا ہے تو گویا اس نے تینوں حالتوں کا جو شرف بخشا گیا تھا اس کا شکر بجالایا ۔ کیونکہ ذکر ہی شکر کی جڑ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ایک آواز دینے والا ، آواز دے گا کہ عقل مند لوگ کہاں ہیں ؟ لوگ پوچھیں گے کہ عقل مند سے کون مراد ہے جواب ملے گا وہ لوگ جو اللہ کا ذکر کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہوئے کرتے تھے ، اور آسمانوں زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے تھے ۔ کہ یا اللہ تو نے یہ سب بے فائدہ پیدا نہیں کیا ، ہم تیری تسبیح کرتے ہیں تو ہم کو جہنم کے عذاب سے بچالے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کے لئے ایک جھنڈا بنایا جائے گا جس کے زیرِ سایہ سب جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہوجاؤ۔(اصبحانی) حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کا ذکر اس کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں۔ (مسند امام احمد) حضور ﷺ فرماتے ہیں اگر تم ہر وقت ذکر میں مشغول رہوتو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافہ کرنے لگیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ مفرد لوگ آگے بڑھ گئے ، صحابہ نے عرض کیا مفرد کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو اللہ کے ذکر میں والہانہ طریقے پر مشغول ہیں۔ افضل العمل: حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں ۔ کیا میں تمہیں تمام اعمال سے بہتر خدا کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور تمہارے درجات کی بلندی کے بہت بڑے سبب سونا ، چاندی خرچ کرنے سے بہتر اور دشمنوں سے لڑکر مرنے اور مارنے سے بہتر چیز نہ بتاؤں صحابہ کرام نے عرض کیا ہاں ! یا رسول اللہ ضرور بتائیں آپ ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کا ذکر ہے ۔ ( امام احمد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ حاکم‘ بیہقی ابوالدردا) حضرت سلمان فارسیؓ سے کسی نے پوچھا کہ سب سے بڑا عمل کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تم نے قرآن شریف نہیں پڑھا ، قرآن پاک میں ہے۔ وَلَذِکْرُ اللہِ اَکْبَرُؕ ۔ ترجمہ : اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔ ( سورۂ عنکبوت آیت ۴۵) حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں جو وقت بغیر ذکرِ الٰہی کے خالی گزر گیا بروزِ قیامت وہی ساعت حسرت کا موجب بنے گا۔ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنّتی کو کسی چیز کا افسوس نہیں ہوگا ۔ مگر اس وقت کا جو وقت ذکرِ الٰہی سے خالی گزر گیا۔ شب بیدار ذاکر کی فضیلت:’’ ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں اس طرح پر کہ عذاب کے خوف سے اور رحمت کی امید سے وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں پس کوئی نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان خزانۂ غیب میں محفوظ ہے جو بدلہ ہے ان کے اعمال کا۔( سورۂ سجدہ آیت۱۶۔ ۱۷ اللہ تعالیٰ ذاکرین کا ہم نشین: فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ ترجمہ : پس تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو ۔ ( سورۂ بقرۂ آیت ۱۵۲ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا حق سبحانہ ‘کا فرمان ہے کہ میں بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے ۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ پس اگر وہ مجھے اپنے نفس (سانس میں) یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنی ذات میں یاد کرتا ہوں اور وہ اگر مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس مجلس سے بہتر و اعلیٰ مجلس (یعنی فرشتوں کی) میں یاد کرتا ہوں ۔ (بخاری‘ مسلم ‘ترمذی‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ بیہقی) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے ابنِ آدم اگرتم مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں تجھے اپنی ذات میں یاد کرتا ہوں ۔ (مسندامام احمد حدیث قدسی ہے’’ اہلِ ذکر میرے اہلِ مجلس ہیں ‘‘علمائے دین ایک مسلمان کو فرائض و و اجبات کی ادائیگی کے بعد زبانی ذکر و تلاوت کے علاوہ اور کیا بتا سکتے ہیں ۔ نفس ، قلب اور روح و سِرّ کی کنجی صرف مشائخ رکھتے ہیں ۔ جو مرید زبان سے قلب سے روح سے اپنے تمام وجود سے حق سبحانہ کو یاد کررہا ہو اسے اﷲتعالیٰ بھی کس کس انداز سے یاد فرمائے گا اس کی لذّت تو اہلِ طریقت ہی جانتے ہیں۔ وہ خوش نصیب ہیں جن کو اپنے مشائخ سے ذکر بالقلب کی دولت نصیب ہوئی ہے اور جن کی ہر سانس اپنے معبود کے ذکر میں صرف ہوتی ہے ان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب و معیت کی دولت اور کون پاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ کو لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ کے لافانی اعزاز سے نوازا گیا۔ حضور ﷺ کو ذاکرین کی ہم نشینی کا حکم وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیۡنَاکَ عَنْہُمْ ۔ ترجمہ :( اے محبوب) اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ رکھا کیجئے ۔ جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں ۔(رضا مندی چاہتے ہیں) آپ کی نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔ ( سورۂ کہف آیت ۲۸) ان آیات کے نزول کے بعد حضور اکرم ﷺ ان لوگوں کی تلاش میں نکلے ۔ ایک جماعت کو دیکھا کہ اللہ کے ذکر میں مشغول ہیں ۔ بعض لوگ ان میں بکھرے بالوں والے ہیں اور خشک کھالوں والے اور صرف ایک کپڑے والے ہیں ۔ (ننگے بدن صرف ایک لنگی ان کے پاس ہے) جب حضور ﷺ نے ان کو دیکھا تو ان کے پاس بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے میری امّت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے کہ خود مجھے ان کے پاس بیٹھنے کا حکم ہے ۔(ابن جریر‘ طبرانی) حضرت سلمان فارسیؓ وغیرہ صحابہ کرام کی ایک جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہ لوگ چپ ہوگئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ کیا کررہے تھے ؟ عرض کیا کہ ذکرِ الٰہی میں مشغول تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے دیکھا کہ رحمتِ الٰہی تم لوگوں پر اتر رہی ہے تو میرا بھی دل چاہا کہ تمہارے ساتھ شرکت کروں پھر ارشاد فرمایا کہ اَلۡحَمْدُ لِلہِ اللہ تعالیٰ نے میری امّت میں ایسے لوگ پیدا کئے جن کے پاس بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ۔ یہ کیسی روح پرور ایمان آفریں اور دل و جاں نواز خوشخبری ہے کہ اللہ کے حبیب احمدِ مختار دو عالم کے تاجدارِ محمد مصطفےٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کو تلاش فرما رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ اپنی ہم نشینی اور رفاقت پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا فرما رہے ہیں ۔ جن کی ایک جھلک دیکھ لینا اہل ایمان کے محبت کی معراج ہے ۔ وہ ذاکرین کو تلاش فرما کر اپنی خوشنودی اور اپنی ہم نشینی کی بشارت دے رہے ہیں ۔ اللہ اور رسول کے نام پر مرمٹنے والوں کے لئے کیا ذکر کی فضیلت کے لئے کسی اور دلیل کو بیان کرنے کی ضرورت باقی ہے؟ ذاکروں پر رحمتِ الٰہی کا سایہ: حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں جب لوگ اللہ کا ذکر کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو ملائیکہ فوراً ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں ۔ رحمتِ الٰہی ذاکروں پر سایہ فگن ہوجاتی ہے ۔ ان پر سکینہ اترتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مجلس میں ذکر کرنے والوں کا تذکرہ فرماتا ہے ۔ (صحیح مسلم) ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہ ’’ وہی (اللہ) ہے کہ درود بھیجتا ہے تم پر وہ اور اس کے فرشتے ۔‘‘ ( سورۂ احزاب آیت ۴۳) ذاکر کی روح اس کی مرضی سے قبض ہوگی: امام ابو القاسم قشیری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ ملک الموت ذاکر کی روح اس کی اجازت سے ہی قبض کرتا ہے ۔ (رسالۂ قشیریہ) آخری کلام: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے دریافت فرمایا کہ سب اعمال میں اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تیری اس حال میں موت آئے کہ تو اللہ کے ذکر میں رطب اللسان ہو۔ (طبرانی و بیہقی) کلامِ آخر سے مراد صوفیاء کرام نے وہ حدیث مرا دلی ہے مَنْ کَانَ آخِرُ کَلاَمُہٗ لاَاِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہُ محمدُ رسولُ اللّٰہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ ترجمہ : جس کا آخری کلام لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہوتو اس کو جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ غافلین کا حال وَمَنْ اَعْرَضَ عَنۡ ذِکْرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی ترجمہ : اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لئے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔ ( سورۂ طٰہٰ آیت ۱۲۴) غافل پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے: وَمَنۡ یَّعْشُ عَنۡ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ (سورۂ زخرف آیت ۳۶ ترجمہ : اور جو شخص رحمن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے۔ شیطان غافل کے قلب پر اپنا تسلّط جما کر اس کے قلب کو دارالشر بنا لیتا ہے۔ مِنۡ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ۬ۙ الْخَنَّاسِترجمہ : وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے۔ (سورۂ الناس) الخناس کے معنی کھسک جانے والا یہ شیطان کی صفت ہے جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو یہ کھسک جاتا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت برتی جائے تو دل پر چھا جاتا ہے۔ ایک بزرگ کا قصہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے حق سبحانہٗ سے دعا کی شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی صورت ان پر منکشف ہوجائے کہ کس طرح وسوسہ ڈالتا ہے تو انھوں نے دیکھا کہ دل کے بائیں طرف مونڈھے کے پیچھے مچھر کی شکل سے بیٹھا ہوا ہے ۔ ایک لمبی سی سونڈ منہ پر ہے جس کو سوئی کی طرح سے دل کی طرف لے جاتا ہے دل کو ذاکر پاتا ہے تو جلدی سے اس سونڈ کو کھینچ لیتا ہے اور دل کو غافل پاتا ہے تو اس سونڈ کے ذریعہ وساوس اور گناہوں کا زہر دل کے اندر داخل کردیتا ہے۔ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون آیا ہے کہ شیطان اپنی ناک کا اگلا حصہ آدمی کے دل پر رکھے ہوئے بیٹھا رہتا ہے ۔ جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ذلت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو اس کے دل کو لقمہ بنا لیتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ! اے لوگو لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَسُولُ اللّٰہِ کا کثرت سے ذکر کرو ۔ اور شیطانوں کو تھکا دو ۔ بے شک شیطان کلمۂ طیب کے ذکر سے ایسا ہی تھک جاتا ہے جیسے کہ تم اپنے اونٹوں پر کثرت سے سواری کرکے اور ان پر زیادہ سے زیادہ بوجھ لاد کر تھکا دیتے ہو۔۔۔