اَفْضَلُ الْذِکْرِ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
ادباً کہوں گا عیسیٰ تیری مجال کیا ہے
عاشق رسولؐ کا بھی مردے جِلا رہا ہے
(حضرت پیر عادلؒ )
’’ ذرا غور کیجئے‘‘ آخر وہ کون سے مردے تھے ؟ جنہیں سیدنا غوثِ پاک رضی اللہ عنہ و دیگر اولیائے کاملین نے زندہ فرمایا ۔ اگر طبعی طور پر اولیاء کرام نے کسی مُردے کو زندہ کیا تو یہ کرامت ،اولیاء کرام کی صداقت کی دلیل ضرور بن سکتی ہے ۔مگر مردے کو اس سے کچھ فوائد حاصل نہ ہوں گے ۔ کیونکہ مردہ ایمان بالغیب کے حکم سے خارج ہوچکا ہے کیونکہ دیکھ کر ایمان لانا اور ہے ، ایمان لاکر دیکھنا اور۔ اولیاء کاملین کی ذات سراپا فیوض وبرکات کا سرچشمہ ہوتی ہیں ۔ کہ یہ جسے زندہ کردے مقام فنا سے مقام بقا میں پہنچا دے پھر بھلا کون ہے؟ جو انھیں مردہ کردے ۔ اور ان کا نام و نشان مٹا دے ۔ اس طرح کی کرامت کو ’’ کرامتِ معنویہ‘‘ اور اس طرح فیضی و لادت کو ’’ولادتِ ثانیہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ کرامت ہر اولیاء کرام و مشائخ عظام کو حاصل ہے ۔ انسا ن کی شناخت اس کے دم سے کی جاتی ہے کہ گویا وہ ’زندہ‘ ہے یا ’مردہ ‘۔ جیسے حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
ااَلْاَنْفَاسُ مَعْدُوْدَاتٌ وَکُلُّ نَفْسٍ یَخْرُجُ بِغَیْرِ ذِکْرٍ اللّٰہِ فَھُوَمَیِّتٌ۔ترجمہ:۔ انسان کی سانسیں گنتی کی ہوتی ہیں ۔ اور جو سانس بغیر ذکر ا(لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ) کے نکلے پس وہ مردہ ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے۔
امَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ اللّٰہَ وَالَّذِیْ لاَیَذکُرُ اللّٰہَ مَثَلُ الْحَیِّ وَالَمَیِّتِ
ترجمہ : جو شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے ، اور جو نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ۔ یعنی ذاکر زندہ اور غافل مردہ کے مانند ہے ۔ حالانکہ زبانی طور پر ذکر کرنے والوں کی کمی نہیں جسے ذکر للسان دو ہونٹ ہلے ایک زبان سے تعبیر کیا جاتا ہے اس طرح زبانی ذکر سے چند فائدے ضرور ہوتے ہیں کہ وہ فضول گوئی سے بچ جاتا ہے مگر قلب کو اس سے کوئی جنبش نہیں ہوتی اور نہ مذکور کا مشاہدہ نصیب ہوتا ہے ۔ مذکور کا مشاہدہ تو قلب کے مصفّا ہونے کے بعد ہی ہوسکتا ہے ۔ اور قلب بغیر ذکر قلبی کے مصفّا نہیں ہوسکتا ۔ جیسا کہ حضورنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
ا اِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالاً وَصِقَالاَ الْقَلْبُ ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالیٰ
ترجمہ : بے شک ہر چیز کی صفائی کے لئے کوئی چیز ہوتی ہے اسی طرح قلب کو پاک و مصفّا کرنے کے لئے اللہ کا ذکر ہے ۔
حدیث میں چونکہ ذکر کو دل کی صفائی کا ذریعہ بتایا گیاہے اس لئے کہ ہر عبادت اسی وقت عبادت ہوسکتی ہے جب اخلاص سے ادا ہو ۔ اور اخلاص کا مدار دلوں کی صفائی پر ہے اسی وجہ سے صوفیاء کرام نے کہا ہے کہ اس حدیث میں ذکر سے مراد ذکرِ قلبی ہے نہ کہ ذکرِ لسانی ۔
مملکتِ بدن میں دل سلطان الاعضاء کا حکم رکھتا ہے اور سارے اعضائے ظاہرہ و باطنہ دل کے تابع ہیں اور دل جس کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے سارے ہی اعضاء اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔
حدیثِ نبویاؐ اِنَّ فِیْ جَسَدِابْنِ اٰدَمَ لَمُضْاَ فَۃًاِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلَّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسِدُ کُلّہٗ ، اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ
ترجمہ : بے شک انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے ۔ تو سارا بدن درست ہوتا ہے ۔ اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا بدن خراب ہوتا ہے ۔ سن لو کہ وہ قلب ہے۔ (مسلم شریف)
آج بھی اہلِ سلسلۂ قادریہ عالیہ خلفائیہ کے مشائخِ عظام اپنے مریدین کو تصدیق بالقلب الَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اس طرح ادا کرواتے ہیں کہ دل کی ہر دھڑکن توحید و رسالت کی شہادت دینے لگتی ہے ۔ یہ ذکر بالقلب کا ہی اعجاز ہے کہ آج بھی سینکڑوں اہلِ سلسلہ نیند کی حالت میں بھی کلمۂ طیبہ کے ذاکر ہیں۔
حضور ﷺ کا ارشاد ہے ۔ تَنَامُ عَیْنا وَلاَ یَنَامُ قَلْبِی ترجمہ : میری صرف آنکھ سوتی ہیں قلب نہیں سوتا ۔ (مسند ابوداؤد)
ذِکْرُلِلّسَانِ لَقْلَقَۃُ وَذِکْرُ الْقَلْبِ وَسْوَسَۃ وَذِکِرُ الرُّوحِ مَشَاھِدَۃُ۔ یاد رکھو : ذکر قلبی نفس مطمئنہ کے جانب اٹھنے والا پہلا قدم ہے اور ذکر روحی نفس مطمئنہ کا دروازہ ہے ۔ اور ذکر سرِّی جو قیل و قال سے باہر ہے جس کے متعلق صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ ذکر مقام اخفیٰ سے جاری ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ آنکھوں میں خمار سا رہتا ہے۔
بہرِ کیف‘ پیرِکامل روحانی کسان کے مانند ہے جو دل کی مردہ و بنجر زمین کو قوتِ باطنہ کی کھادو آب دیتا ہے اور پھر ذکر روحی
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا ’ ہل‘ چلاتا ہے اور توجہ خاص سے کچھ دنوں میں دل کی مردہ زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے۔
اوَاذْکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً وَّدُوۡنَ الْجَہۡرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِ وَلَا تَکُنۡ مِّنَ الْغٰفِلِیۡنَ
ترجمہ : اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو (ذکر قلبی)) زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے (ذکر خفی) صبح اور اشام اور غافلوں میں نہ ہونا۔
( سورۂ اعراف آیت ۲۰۵)
صوفیائے کرام پر اعتراض کرنے والے اس فرمانِ اِلٰہی کو غور سے پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ ذکر بالقلب اور ذکر خفی وغیرہ کے جو اصول و قواعد صوفیہ نے مرتّب فرمائے ہیں وہ کتاب و سنت کے مطابق ہیں یا خلاف۔
مسند ابویعلی میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ذکر خفی جس کو فرشتے بھی نہ سن سکیں ستر درجہ دوچند ہوتا ہے جب قیامت کے دن حق سبحانہ‘ تمام مخلوق کو حساب کے لئے جمع فرمائیں گا اور کراماً کا تبین اعمال نامے لے کر آئیں گے تو ارشاد ہوگا فلاں بندہ کے اعمال دیکھو کچھ اور باقی ہیں وہ عرض کریں گے ہم نے کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو لکھی نہ ہو اور محفوظ نہ ہو ۔ تب ارشاد ہوگا کہ ہمارے پاس اس کی ایسی نیکی باقی ہے جو تمہارے علم میں نہیں ، وہ ’ذکر خفی ‘ہے۔
بیہقی نے شعب میں سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جس ذکر کو فرشتے بھی نہ سن سکیں وہ اس ذکر سے جس کو وہ سنیں ستر درجہ بڑھا ہوا ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
میانِ عاشق و معشوق رمزیست
کراماً کا تبین راہم خبر نیست
یعنی محب و محبوب میں ایک ایسی ر مز بھی ہے جس کی کراماً کا تبین کو بھی خبر نہیں ہوتی۔
حدیث میں ارشاد ہے۔کل دم حاضرۃ من ذکر الخفی فھو مومن ۔کل دم غافلۃ من الذکرالخفی فھو میت
ترجمہ : یعنی جو دم حاضر ہے ذکر خفی سے پس وہ مومن ہے اور جو دم غافل ہے ذکرخفی سے پس وہ جاہل ہے۔
(فضائل تیلیغ صفحہ ۲۰ شیخ الحدیث مولوی محمد زکریا صاحب)
سلطان باھوؒ فرماتے ہیں۔ فقہ کا ایک مسئلہ سیکھنا ایک سال کی عبادت کے برابر ہے ۔ ایک دم خدا تعالیٰ کا نام لینا اور اس کی یاد میں رہنا ہزار سال کے ثواب سے افضل ہے ۔کیونکہ فقہ کا پڑھنا اور تلاوت قرآن کرنا عبادت ظاہری ہے جس کی قضا ممکن ہے اور گزرے ہوئے وقت کی قضا ممکن نہیں ۔
(عین الفقر۔ص ۱۲)
نفس کی آمد و شد ہے نماز اہلِ یقین
جو یہ قضا ہو تو پھر دوستو قضا سمجھو
فَاذْکُرُوا اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِکُمْ
ترجمہ : پس اللہ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹےہوئے (سورۂ نساء آیت ۱۰۳)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر فرض کی حد معین فرمائی سوائے ذکر کے اس کی کوئی حد نہ رکھی۔
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے۔ لم یودالفرض الدائم لن یقبل الہ فرص الوقت۔ ترجمہ : یعنی جو شخص فرض دائمی ادا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کے وقتی فرض کو قبول نہیں فرماتا۔چار وقتی فرض یہ ہیں : نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ اور دائمی فرض لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے ۔ پس طالب حق کو اس دائمی فرض سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ چنانچہ شیخ الاسلام حضرت خواجہ قطبُ الدین مودودچشتی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
مزن بے یادِ مولیٰ یک نفس را
اگر در صو معدیا کشتی
پس انسان کو سانس لیتے وقت اور باہر نکالتے وقت ہر حالت میں ذاکر رہنا چاہئے تاکہ اس دائمی ذکر سے دل کی اصطلاح ہو ، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ لِکُلِّ شَیْءٍ مُصْقِلَۃُ وَمُصْقِلَۃ الْقَلْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ ۔
بعض درویش ایسے بھی ہیں جن کی زبان ساکن ہوتی ہے اور دل یا دِ الٰہی میں مشغول ہوتا ہے جس کو خود اپنے کانوں سے سن لیتا ہے۔
(مفتاح العاشقین ، چوتھی مجلس)
حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اصلی زندگی وہی ہے جو یادِ حق میں گزرے اور جو اس کے علاوہ وہ بمنزلۂ موت ہے۔
غافل زاحتیاطِ نفس یک نفس مباش
شاید ہمیں نفس نفس ِ واپسیں بود
ترجمہ :اے غافل اپنی سانس کی آمد و شد سے ایک سانس کے لئے بھی غافل نہ رہ ۔ ہوسکتا ہے کہ یہی سانس تیری زندگی کی آخری سانس ہو۔
حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، یاد رکھو جو شخص تمام عمر روزہ رکھے ، نماز پڑھے ، حج کرے ، زکوٰۃ دے ، شب و روز تلاوتِ قرآن کرتا رہے ۔ مگر کلمۂ طیبہ ادا نہ کرے یا اس سے ذرا بھی انحراف کرے وہ ہرگز مسلمان نہیں ہے ۔ اور کوئی عبادت اس کی مقبول نہیں ۔ جیسے کافر یا اہلِ بدعت واستدراج کی تمام عبادت رائیگاں ہے ۔ کیونکہ حدیث میں’ اَفْضَلُ الذکر لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘آیا ہے ۔ عبادت ذکر کی محتاج ہے اور اہل ذکر و فکر غیر محتاج ہیں ۔ جس شخص کے دل میں تصدیق ایمان نہیں ہے اسے ذکر بھی حاصل نہیں ۔ ایسے شخص کو مومن و مسلمان بھی نہیں کہہ سکتے۔
اب جاننا چاہیے کہ تصدیق قلبی کسی چیز سے حاصل ہوتی ہے ۔ تصدیق قلبی ذکر قلب سے حاصل ہوتی ہے اور ذکر قلب مرشد واصل الی اللہ سے ، جس کی یہ صفت ہو یُحْیِ القَلَبْ وَ یمِیتُ النَّفْسَ( جو نفس کو مارے اور قلب کو زندہ کردے) جس طرح زبان ایک عُضو ہے ، یہی دل کا حال ہے ۔ وہ اعضائے جسمانی میں سے ایک عضو ہے جس طرح کہ زبان بلند آواز سے کلمۂ طیبہ پڑھتی ہے دل بھی اسی طرح کہ زبان بلند آواز سے کلمۂ طیبہ پڑھتی ہے دل بھی اسی طرح آواز سے کہنے لگتا ہے ۔لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور اپنے کانوں سے سنتا بھی ہے۔
ہر سانس کے آنے جانے میں کلمہ کے سوا پیغام نہیں
دربارِ الٰہی میں ایسا بڑھ چڑھ کے کوئی انعام نہیں
(حضرت پیر عادؔل ؒ )
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز بلند پرواز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
نفس ہے اک ایک اپنا جان ہے اک ایک نبی
غیرِ ذکرِ حق ہوئے قتل ہے اک ایک صحی
نئیں کیا انفاس کا کچھ پاس تواے تبتغی
یعنے ستر مرتبہ کعبہ ک و توڑا اے اخی
شمس العارفین میں ہے کہ انسان کے وجود میں دو دم ہیں ۔ ایک وہ جو اندر جاتا ہے ۔ دوسرا وہ جو باہر آتا ہے ۔ ان دموں پر دو فرشتے موکل ہیں ۔
جب انسان اندر کی طرف دم لیتا ہے تو موکّل اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتا ہے کہ پروردگار میں اندر دم قبض کروں یا پھر باہر جانے دوں ۔ اور دم جب باہر جاتا ہے تو بھی یہی عرض کرتا ہے اور وہ دم جو اسمِ اللہ کے تصور سے باہر نکلتا ہے وہ نورانی صورت میں بارگاہِ الٰہی میں چلاجاتا ہے ، اور مثلِ موتی کے ہوجاتا ہے کہ جس کی قیمت کا مقابلہ دونوں جہاں کے اسباب بھی نہیں کرسکتے ۔ اور وہ بے بہا موتی ہے ۔ اسی واسطے فقیروں کو اللہ کا خزانچی کہتے ہیں۔
(شمس العارفین باب دوم ص۱۲۔۱۱)
محک الفقراء میں سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ جب بندہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہتا ہے تو اس کے سانس سے ایک سبز پرندہ پیدا کیا جاتا ہے ۔ کہ اس کے پر موتی اور یاقوت سے ہوتے ہیں۔ اور وہ عرش کے نیچے جاتا ہے اور کانپتا ہے۔
خدا تعالیٰ کا فرمان ہوتا ہے کہ اے پرندہ ساکن ہو ۔ وہ کہتا ہے خداوندا کیونکر ساکن ہوں کہ اس کلمہ پڑھنے والے کو تو نہیں بخشتا ہے ۔ فرمان ہوتا ہے کہ ہم نے بخش دیا اس کو۔
(محک الفقراء ص ۳۰۷)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کلمۂ طیب سراسر تاثیر رکھتا ہے ۔ اِدھر اقرار زبانی ہوا ۔ اُدھر تصدیق قلبی ہوگئی ۔ پس جس وقت تصدیق درست ہوئی اس وقت کلمہ طیب لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تاثیر تمام جسم کے وجود میں سرایت کرجاتی ہے ۔ اور نفس فانی ہوجاتا ہے ۔ اور ہر ایک دل کی روح کے ساتھ مصافحہ اور ملاقات روحانی ہوجاتی ہے ۔ بشرطیکہ توفیق حق رفیق ہو ۔ اور اس وقت ولایت اولیاء اللہ کے مراتب پر مثل حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کے و حضرت سلطان بایزید ؒ کے پہنچ جاتی ہے
( محک الفقراء ص ۹۱)
ذکرِ روحی سے جسے پیار ہوا
اللہ والوں میں وہ شمار ہوا
(حضرت پیر عادؔل ؒ)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے ’’ قولِ جمیل ‘‘ میں اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ میں ابتدائے سلوک میں ایک سانس میں لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ُدو سو مرتبہ کہا کرتا تھا۔( القول الجمیل شفآء العلیل ص۸۵)
پس ازسی سال ایں معنی محقق شدبہ خاقانی
کہ ایک دم باخدا بودن بہ ازملک سلیمانی
تیس سال کی مسلسل تحقیق و جانفشانی کے بعد خاقانی پریہ نکتہ کھلا کہ دم بھر کا ذکرِ الٰہی حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہی سے کہیں بہتر ہے ۔ اپنی ایک ایک سانس کی نگہبانی کرنے والے اولیاء وصالحین نے ایک لمحہ کی غفلت بھی گوارہ نہ کی اور ہر حال میں نفس کی آمد و شُدپہ کڑی نظر رکھی۔
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہفرماتے ہیں کہ عورتوں کا معاملہ ہمارے معاملہ سے بہتر ہے کیونکہ وہ ہر مہینے میں غسل کرکے ناپاکی سے پاک ہوتی ہیں۔ اور ہمیں ساری عمر پاکی کا غسل نصیب نہ ہوا ۔اللہ اکبراور آپ نے فرمایا کہ اگر ایک بار ساری عمر میں لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ بایزید رحمتہ اللہ علیہ سے صحیح اور درست نکل آئے تو پھر بایزید رحمتہ اللہ علیہ کو کسی سے خوف نہیں ہے۔
سرکار پیر عادلؔ بیجاپوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
ہر سانس کو پوچھے گا محشر میں خدا وندا
ہر سانس میں کلمے کو ہم ڈٹ کے سنا دیں گے
پس راہِ سلوک میں ہر طالبِ مولا پر فرض ہے کہ دم کی نگہبانی کرے۔
نفس کی آمد شد کی جو کرتا ہے نگہبانی
اسی پر منکشف ہوتے ہیں اسرارِ خد ا دانی
(ذاکرؔ )
اَلَمْ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخْشَعَ قُلُوۡبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ ترجمہ :کیا ایمان والوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لئے جھک جائیں۔
(سورۂ حدید آیت ۱۶)