دعوتِ فکر
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو ’’ صحیح ‘‘ مسلمان بھی ہو
(علامہ اقبالؔ )
آج دنیا کا اکثر کلمہ گو خود کو مسلمان ہونے کا دم بھر رہا ہے ۔ حتٰی کہ اس زعم باطلہ کے ثبوت کی خاطر خوں گیری پر آمدہ ہوچکا ہے ۔ اس لباس مسلمانی کے جُبَّہ و قُبَّہ میں ایسے لاتعداد ایمان خور شیاطین و منافقین و مشرقین پوشیدہ ہیں ۔ جنہیں کھلی آنکھ سے دیکھ کر بھی مومن و منافق کا پتہ نہیں چلتا ۔ مثلاً کسی برتن میں رکھے ہوئے پانی کو دیکھ کر کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ پانی میٹھا ہے یا کھارا ؟ ہرگز نہیں بتا سکتا جب تک اس پانی کو چکھ نہ لے ۔ ٹھیک اسی طرح سے لفظِ مسلمان میں افراق و امتیاز موجود ہے ۔ اس میں مومن و منافق پوشیدہ و مخفی ہیں۔حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ رحمہ فرماتے ہیں ۔
منہ سے کہیں شکر تو زباں کو نہیں مزہ
جس نے چکھا زبان پر لذَّت وہی لیا
پانی کی پہچان چکھنے سے ہوگی اور مومن کی پہچان تحقیق کلمہ سے ہوگی ۔ حالانکہ قرآن مجید نے فرقانِ حمید کی روشنی میں ان منافقین کے اس خیالِ باطلہ کی نفی
کی بلکہ انھیں قلبی طور پر مریض ہونے کی سند بھی دی ۔ (ومن ۔۔۔۔۔۔ فی قلو بھم مرض)ترجمہ : اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں فریب دینا چاہتے ہیں اللہ اورایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو انھیں اس کا شعور نہیں ۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے۔(سورہ بقرہ آیت ۹۔۸)
اب سوال یہ ہے کہ ہم مومن و مسلم و منافق کس کو کہیں تو فقۂ اسلام نے اس مسئلہ کو دو خصوصیات میں درج فرمایا ۔
اول اقرار باللسان ۔ دوم تصدیق بالقلب ۔ جیسا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے ۔ ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کا نام ہے اور اعضاء کے اعمال نفس ایمان سے خارج ہے ہاں وہ ایمان میں کمال بڑھاتے ہیں اور حسن پیدا کرتے ہیں ۔ جو بھی کلمہ طیب کے ان دو مطالبات کو اچھی طرح پورا کرتا ہے ہم ان کو بلاشبہ ازروئے اسلام مومن و مسلم کہہ سکتے ہیں ۔ حالانکہ مومن و مسلم میں بھی زمین و آسمان کا فرق موجود ہے ۔ جیسا کہ سورۂ احزاب آیت ۳۵ میں مسلمان مرد اور مسلمان عورت ، مومن مرد اور مومن عورت کا الگ الگ ذکر کرکے دونوں میں فرق واضح کیا گیا کہ ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن و حدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں بحرحال ‘میری تحریک کا مقصد ’’ دعوت فکر‘‘ ہے ۔ میں ان لوگوں کو دعوتِ فکر دے کر بیدار کرنا چاہتا ہوں جو محض زبانی جمع خرچ کو ایمان سمجھ کر جنت و حوروں کے خواب میں مبتلا ہیں ۔ میں ان لوگوں کو
دعوتِ فکر دیتا ہوں ‘جو اپنی لاشعوری کے باعث قلبی امراض میں گرفتار ہیں ۔ میں ان لوگوں کو دعوت فکر دیتا ہوں ‘جو جکڑا لو مولویوں کے دامِ فریب میں نظر بند ہوکر ان کے نقشِ پا کو ذریعۂ نجات سمجھ کرکولو کے بیل کے مانند چل رہے ہیں ۔ خیر آمدم برسرِ مطلب ‘کلمہ طیبہ پڑھ کر سمجھنے اور سمجھ کر پڑھنے کے لئے پیش کیا گیا جس نے بھی ایک مرتبہ کلمہ طیبہ سمجھ کر پڑھا اس کے لئے کلمۂ طیب آنِ واحد میں’’ کلیدِ مغفرت ‘‘بن کر دروازۂ نجات کھول دیتا ہے ۔ جیسے حدیث پاک میں حضرت ابوبکر صدیقثسے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھاکہ ۔
مَانَجَا ۃُ ھٰذِا الْاَمْرِ ؟ فَقَالَ مَنْ قَبْلَ مِنِّی الکَلِمَۃَ اَلَّتِی عَرْضَتْھَا عَلٰی عَمِّیْ فَرَدَّھَا فَھِیَ لَہُ نَجَاۃٌ:۔ترجمہ : اس دین میں نجات کا خاص نقطہ کیا ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا جس نے میرا لایا ہوا کلمہ میری دعوت پر قبول کرلیا ۔ جو میں نے اپنے چچاپر پیش کیا تھایہی کلمہ اصل نقطۂ نجات ہے۔ (مسند امام احمد)
زباں سے کہہ بھی دیا لَا اِلٰہَ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(علامہ اقبالؔ )
حدیث پاک : مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَلْفَ مَرَّۃٍ اِلَّا بالَتَحْقِیْق فَھُوَ کافِرٌ۔ترجمہ :( جس نے کلمہ طیب کو بغیر تحقیق ہزار بار کہا وہ کافر ہے) بلا
تحقیق تصدیق بالقلب ممکن نہیں اور بلا تصدیق زبانی اقرار سوائے دروغ گوئی کے کچھ بھی نہیں۔حضرت پیر عادل ؔ بیجا پوریؒ فرماتے ہیں۔
’’ تحقیق کر تصدیق کر کلمہ گوبن جائے گا۔‘‘
مثلاً اگر کسی جگہ کوئی حادثہ در پیش ہوجائے تو پولس والے آکر پہلے معاملے کی تحقیق کرتے ہیں پھر حادثے کی تصدیق کرتے ہیں پھر تھانے میں جاکر اس حادثے کی گواہی دیتے ہیں ۔
تحقیق کلمہ میں باریک نکتہ نفی و اثبات ہے ۔ جس میں دو کفر چار شرک چار توحید کے درجے پوشیدہ ہیں۔
حضور اکرم ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں مومن وہ نہیں جو مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور زبانی طور پر لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہتے ہیں ۔ اے عمررضی اللہ عنہ ایسے کلمہ گو حقیقت سے بے بہرہ اور بے خبر ہیں ۔ یہ مومن نہیں ہیں بلکہ منافق ہیں کیونکہ زبان سے تو کلمہلاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کا اقرار کرتے ہیں لیکن کلمہ کا اصل معنیٰ سے ناواقف ہیں ۔ انھیں خاک بھی پتہ نہیں ہے کہ کلمہ سے اصل مقصود کیا چیز ہے۔یعنیلا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ تو کہہ لیتے ہیں لیکن ان کو کیا خبر کہ نیست سے کیا مراد ہے اور ہست سے کیا ؟ایسا شکی طور پر کلمہ کہنا شرک ہے اور شرک شک عین کفر ہے ایسے کلمہ گو کافر کہلاتے ہیں کیونکہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ کلمہ میں کس کی نفی مراد ہے اور کس کا اثبات ؟
(از گنج الاسرار خواجہ غریب نوازؒ )
اس لئے کلمہ طیبہ کے رشد و ہدایت کے واسطے پیر کامل کی اشد ضرورت ہے ۔ تاکہ وہ اپنے علم و عمل سے طالب کے شک و شبہات کی نفی کرکے باطنی قوت سے کلمہ کے عروج و نزول طے کراکے اس کو مجسَّم کلمہ بنا دے ۔ خیال رہے توحید کے بالمقابل شرک دستک دے رہا ہے ہر گناہ قابلِ عفو ہے سوائے شرک کے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہ وَیَغفِرُمَادُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَاء( سورۂ النساء آیت ۱۱۶) ترجمہ : یقیناًاللہ نہیں بخشے گا شرک کو اور بخش دے گا اس کے علاوہ گناہ جس کے چاہے گا۔
انجامِ سفر سو چاہی نہیں منزل پہ چراغاں کیا ہوگا
تحقیق نہیں تصدیق نہیں پھر کامل ایماں کیا ہوگا
(حضرت پیر عادل ؒ ؔ )
سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ اے طالب میں تجھ کو کلمہ طیبہ کی تعریف بتلاتا ہوں ، جاننا چاہئے کہ کلمہ طیبہ کی تہہ وصال ہے اور انتہا کلمہ طیبہ کی مشاہدہ الٰہی ہے ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ رسم کے مطابق کلمہ پڑھنے والے گو کلمہ کو نہیں جانتے ۔ گو وہ زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں ۔ مگر وہ کلمہ ان کے حلق کے اندر سے نیچے نہیں اترتا ہے۔بلکہ کلمہ زبانی اور ہے اور تصدیق اور ہے ۔ پس جس کسی کو کلمہ کی معرفت حاصل ہوگئی وہ صاحبِ معرفت الٰہی ہے اور اس کی روح زندہ اور اس کانفس فانی ہے ۔ پس جو عشاق ہیں ۔ وہی اس کلمہ کی تعریف کو جان سکتے ہیں ۔ اور اس کے ساتھ
واصلِ حق ہوتے ہیں۔
ہم زمانے کو حقیقت کی ضیاء دیتے ہیں
قلبِ کافر کو مسلمان بنا دیتے ہیں
( حضرت پیر عادلؔ ؒ )
پیرِ کامل اہلِ دل ہوتا ہے اور دل والا ہی دل کی حقیقت سے آگاہی بخش سکتا ہے ۔ جس سے تصدیق بالقلب کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔ واضح ہو قلب کے معنیٰ الٹنے اور بدلنے کے ہیں دل کو بھی قلب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بائیں پہلو میں اُلٹا لٹکا ہوا ہے۔ جو مرکز حیات ہے ۔ خون کو تمام جسم میں پہنچانا اسی کے ذِمَّہ ہوتا ہے جسم میں سب سے پہلے جو شئے حرکت کرتی ہے وہ دل ہے اور آخر میں جو عضو غیر متحرک ہوتا ہے وہ دل ہے ۔
حضوراکرم ﷺ فرماتے ہیں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔ ایک ظاہری دوسرا باطنی ۔ اور قرآن کریم کے بھی معنیٰ کے دو پہلو ہیں ۔ ایک ظاہری معنیٰ دوسرا باطنی معنیٰ ۔ اس لحاظ سے قلب کے بھی دو پہلو ہیں ایک قلبِ ظاہری جو گوشت کالوتھڑا ہے جسے قلبِ مجازی سے تعبیر کیا گیا ۔ دوسرا قلبِ باطنی جو لطیفۂ ربَّانی جوہرِلاثانی ہے جسے قلبِ حقیقی کے نام سے موصوف کیا گیا ہے ۔ جو انسان کے ساتھ مخصوص ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان تمام مخلوق میں افضل ہوا ۔ جس طرح گوشت کے لوتھڑے یعنی قلبِ مجازی کے ساتھ جان قائم ہے اسی طرح لطیفۂ ربَّانی یعنی قلبِ حقیقی کے ساتھ ایمان قائم ہے ۔