انسان ایک نسخۂ جامع ہے
امام ربانیّ مجددِالفِ ثانی ؒ فرماتے ہیں۔
انسان ایک نسخۂ جامع ہے ۔ جو کچھ ساری موجودات میں ہے وہ سب کا سب تنہا انسان میں موجود ہے ۔ لیکن عالمِ امکان کی اشیاء اس میں بطور حقیقت موجود ہیں ، اور مرتبہ وجوب بطورِصورت اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلیٰ صُوْرَتِہ
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ۔‘‘
اور اسی جامعیت پر انسان کے دل کو پیدا کیا گیا ہے کہ جو کچھ پورے انسان میں ہے تنہا دل میں موجود ہے ۔ لہٰذا قلبِ انسانی کو حقیقت جامعہ کہتے ہیں ۔ قلب کی اسی وسعت و کشادگی کے متعلق بعض مشائخ نے جامعیت و سعتِ قلب کے متعلق یوں خبر دی ہے کہ :
’’ اگر عرش اور جو کچھ اس میں ہے قلبِ عارف کے ایک کونے میں ڈال دیں تو کچھ محسوس نہ ہو ۔‘‘ کیونکہ قلب اربعہ عناصر ، افلاک ، عرش ، کرسی ، عقل ، نفس اور مکانی اور لا مکانی اشیاء سب کا جامع ہے ۔
یہ دراصل بخاری اورمسلم شریف میں مذکور طویل حدیث کا ایک جملہ ہے ۔ پوری حدیث اس طرح ہے ۔
عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلق اللہ آدم علی صورتہ طولہ ذراعاً الخ
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ۔ علماء کا اس حدیث کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض علماء تو اس حدیث کی کوئی تاویل بیان نہیں کرتے ۔ اور کہتے ہیں یہ حدیث
احادیث صفات میں سے ہے لہٰذا اس کی تاویل سے باز رہنا چاہیے ۔ کیونکہ اس طرح کے متشابہات میں سلف کا یہی مذہب ہے ۔
بعض دوسرے علماء اس کی تاویل کرتے ہیں ۔ اور اس کی مشہور تاویل یہ ہے کہ لفظ صورت سے مراد صفت ہے ۔ جس طرح عام محاورات میں کہا جاتا ہے ۔’’ اس مسئلے کی صورت یہ ہے ‘‘۔ ’’اور فلاں معاملے کی صورت حال یہ ہے ۔‘‘ اب حدیث پاک کا معنی یہ ہوگا ۔ ’’ خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صفت پر پیدا فرمایا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان صفات کا موصوف بنایا جو اس کی صفات کا پر تو ہیں ۔ تو اسے حیؔ ، عالمؔ ، قادرؔ ، متکلم ؔ ، سمیعؔ ، بصیرؔ ، پیدا فرمایا ۔
حدیث کی دوسری تاویل یہ ہے کہ اضافت شرافت و بزرگی کے اظہار کے لیے ہے ۔ جیسے بیت اللہ ، روح اللہ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جمیل و لطیف صورت پر پیدا فرمایا اور آپ کی ذات کو منبع اسرار و لطائف بنایا ۔
تیسری تاویل یہ ہے کہ ’’ ضمیرہ ٖ ‘‘ سے مراد حضرت آدم ہی ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بشر کے بالکل ابتدائی حال پر بالکل ٹھیک اور متناسب الا عضاء پیدا فرمایا کہ آپ کا طول ساٹھ گز تھا ۔ دوسرے انسانوں کی طرح کہ وہ پہلے نطفہ پھر مضغہ پھر جنین ہوتا ہے پیدا نہیں فرماتا ۔
چوتھی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک صورت خاصہ پر پیدا فرمایا جو تمام مخلوقات کا نسخہ جامع ہے ۔ کیونکہ کائنات میں ایسی کوئی مخلوق نہیں جس کی مثال صورت آدم میں نہ ہو ۔ اسی لیے انسان کو عالم صغیر کہا جاتا ہے ۔
پانچویں تاویل یہ ہے کہ صورت سے مراد شان اور امر ہے کہ آپ مسجودِ ملائکہ ہیں اور تمام کائنات کو مسخر کرنے والے اور ان میں تصرف کرنے والے ہیں ۔
تو چونکہ قلب لامکانی امور پر بھی مشتمل ہے ۔ لہٰذا عرش اور جو کچھ اس میں ہے قلب میں اس کی کچھ مقدار نہ ہوگی کیونکہ عرش اورجو کچھ اس میں ہے باوجود وسعت و کشادگی کے دائرہ مکان میں داخل ہے اور مکانی چیز اپنی جگہ چاہے کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہو ، لا مکانی کے سامنے تنگ ہی ہے اور کوئی قدر نہیں رکھتی ۔ لیکن مشائخ قدس اللہ اسرار ہم میں سے ارباب صحو جانتے ہیں کہ یہ حکم ( قلب کا عرش سے بھی وسیع ہونا) سکر پر مبنی ہے ۔ اور شئے کی حقیقت اور اس کے نمونے میں عدم امتیاز کے باعث ہے ۔
عرش مجید جو ظہور تام کا محل و مقام ہے ، اس سے بہت بلند ہے کہ قلب تنگ میں اس کی گنجائش ہو قلب کے اندر عرش کا جو کچھ نظر آتا ہے ، اس سے بہت بلند ہے کہ قلب تنگ میں اس کی گنجائش ہو قلب کے اندر عرش کا جو کچھ نظر آتا ہے وہ عرش کا نمونہ ہے ۔ حقیقت عرش نہیں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قلب کے آگے عرش کے نمونے کی کچھ حیثیت نہیں ۔ کیونکہ قلب بے انتہاء اشیاء کے نمونوں کا جامع ہے ۔ آئینہ جس میں آسمان اپنی تمام بڑائی اور اس میں موجود تمام اشیاء کے ساتھ دکھائی دیتا ہے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آئینہ آسمان سے وسیع ہے ۔ ہاں آسمان کی مثال اور اس کا عکس جو آئینے میں دکھائی دیتا ہے وہ آئینہ کے سامنے چھوٹا ہے ۔ لیکن حقیقت آسمان آئینے سے بہت بڑی ہے ۔ اس بحث کی ایک مثال سے وضاحت ہوجاتی ہے ۔
مثلاً انسان میں کرۂ خاک کا عنصر پوشیدہ ہے ۔ انسان کی جامعیت کا خیال کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کرہ ارض سے وسیع ہے ۔ بلکہ وجود انسانی کی کرۂ خاک کے سامنے کچھ مقدار نہیں بلکہ اس کے سامنے انسان ایک چھوٹی سی چیز ہے ۔دراصل ایک چھوٹی چیز میں موجود نمونے کو حقیقت جانتے ہوئے یہ حکم لگا دیا جاتا ہے ۔
(مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ۲۶۵ )
نظریۂ آدمؑ اور شیخ اکبر ؒ
شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں ۔ خدا کے اسمائے حسنیٰ بے حد و بے حساب ہیں ۔ خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اعیان اسماء اور حقائق اور صور علمیہ کو ملاحظہ فرمائے ۔ یا یوں کہو ۔ کہ وہ اپنے آپ کو ملاحظہ فرمائے ۔مگر کس طرح ۔ ایک موجود خارجی میں جو جامع ہو اسرار کا اور مظہر تام ہو اسمائے الٰہیہ کا ۔ ایسا ملاحظہ کیوں ؟ اس لیے کہ کسی کا اپنے آپ کو خود ہی اپنے میں دیکھنا ایسا نہیں جیسا کہ اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھنا ۔ یہ ملاحظہ آئینے کے حسب حیثیت ہوگا ۔ جو سامنے پیش نظر ہو ۔ یہ ملاحظہ ہر گز نہ ہوتا ۔ جب تک آئینے پر وہ اپنی تجلی نہ ڈالتا ۔ اور آئینے سے اس کا انعکاس وظہور نہ ہوتا ۔
خدائے تعالیٰ نے انسان کے پیدا کرنے سے پہلے تمام عالم کو پیدا کیا تھا ۔مگر یہ عالم کیسا تھا ۔ ہر طرح ٹھیک تھا ۔ لیکن تن بے جان تھا ۔ آئینہ بے آب تھا ۔ جلا شدہ نہ تھا ۔
یا د رکھو کہ یہ عادت الٰہی ہے ۔ یہی حکم الٰہی کی شان ہے کہ وہ جب کسی کو مستویٰ (تسویۃ خود قرآن شریف میں ہے اس کے سمجھانے کے لیے درست کا لفظ زیادہ کیا گیا ہے) اور درست کرلیتا ہے اور اس میں تجلی قبول کرنے کی قابلیت آجاتی ہے ۔ تو اس پر تجلی فرماتا ہے ۔ اس محل میں تجلی حق ہی کو نفخ و روح کہتے ہیں ۔ پھر نفخ کے بعد کیا ہوتا ہے وہ مستویٰ اور درست کیا ہوا محل اپنی استعداد میں ترقی کرتا ہے تاکہ تازہ بتازہ تجلی لم یزل ولایزال کو قبول کرتا رہے ۔ اللہ قدیم ہے ۔ اس کی تجلیات اسماء صفات سب قدیم ہیں ۔ اور مستندالی اللہ ہیں ۔ تسویہ یعنی درست کرنا ۔ ٹھیک بنانا بھی اللہ کا فعل ہے ۔اور اللہ کی طرف مستند ہے ۔ پھر غیر مستند الی اللہ ہے کون ؟ کیا وہ جو قابل ہے ۔ یعنی جو تجلیاتِ الٰہیہ کو قبول کرتا ہے ؟ نہیں ، کوئی غیر مستندالی اللہ نہیں ۔ قابل توعین ثابتہ ۔ معلوم الٰہی و صورت علمیہ حق جل جلالہ ہے ۔ پس یہ بھی فیض اقدس سے ثابت و نمایاں فی علم اللہ ہے ۔ غرض
کہ عالم میں جو کچھ ہے ۔ اس کی ابتداء بھی حق تعالیٰ سے ہے ۔ اور اس کی انتہا بھی حق تعالیٰ پر ہے ۔ جس طرح وہ سب کا مرجع ہے ۔ اسی طرح وہ سب کا مبدا بھی ہے ۔
جب یہ عالم بغیر آدم کے وجود کے ، آئینہ بے جلا تھا ۔ تو امر الٰہی کا اقتضا ہوا کہ آئینہ عالم کو جلا دی جائے ۔ آدم ہی آئینہ عالم کی جلا تھا اور جسم عالم کے لیے مثل جان تھا ۔ آدم سے پہلے ملائکہ بھی تو تھے ۔ کیا وہ جان عالم یعنی مدبر عالم نہ تھے ۔ نہیں جان تن کے تمام قویٰ پر حاکم ہوتی ہے ۔ جسم عالم کو قوم یعنی عرفا کی اصطلاح میں انسان کبیر اور جسم انسان صغیر یا عالم کو عالم کبیر اور انسان کو عالم صغیر کہتے ہیں ۔ ملائکہ انسان کبیر یعنی عالم کے لیے مراکز قویٰ ہیں ۔ یعنی قوتوں کے محل ہیں جیسے جسم انسان میں قوائے روحانیہ و حسّیہ کے مرکز و محل ۔ ہر ایک قوت کا مرکز اپنے سوا دوسری قوت کے مرکز سے ناواقف ہے ۔ اور اپنے آپ کو سب سے افضل و اعلیٰ جانتا ۔ اور ہر ایک کو منصب عالی و منزل رفیع کا اہل و مستحق سمجھتا ہے ۔ اسی طرح انسان کبیر کی قوتوں کے مرکز و محل یعنی ملائکہ عالم ، ایک دوسرے کے کمالات سے اور جامع کل یعنی حضرت انسان کے کمالات سے بے خبر ہیں ۔ اور اپنی افضلیت کے مدعی ہیں ۔
اب ذرا فطرتِ انسانی پر غور کرو ۔ اس میں کیا کیا ودیعت ہے ۔ وہ مظہرِ تام ہے ۔ شانِ الوہیت کا ۔ وہ جامع ہے صفات کمالیہ کا ۔ جس کو واحدیت کہتے ہیں ۔ اس میں
حقیقتہ الحقائق یعنی مرتبہ احدیت کی بے رنگی و تنزیہ بھی ہے ۔ اس میں خلقت عنصری و مادی کے لوازم بھی داخل ہیں ۔ جو اوصاف و کمالات انسان کے حامل ہیں یہاں تک کہ اس میں طبیعت انسانی کبیر یعنی عالم کے اقتضا کے مطابق بن جانا بھی شامل ہے ۔ اس میں طبیعت عالم کی تمام قابلیتوں کو حاوی ہونے کی صلاحیت بھی ہے عام اس سے کہ یہ قابلیتیں اعلیٰ ہوں یا اسفل ۔ اور اس مسئلے کو یعنی انسان کا مل کے مظہر
تام ، و تجلی گاہ ،متجلی لہ ، کامل ہونے کو ، کسی کی عقل ۔ نظر و فکر نہیں جان سکتی ۔ بلکہ اس قسم کا ادر اک صرف کشف الٰہی سے ہوتا ہے ۔ کشف الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ صور عالم جو قبول کنندہ ارواح عالم ہیں ۔ ان کی اصل کیا ہے ۔
اس خلقت جامع و مظہر تام کو انسان و خلیفہ کا نام دیا گیا ۔ انسان کا نام اس لیے دیاگیا کہ ’ انسان‘ مردمک چشم اور آنکھ کی پتلی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ انسان کی نشأت و خلقت تمام تفصیلات کو عام و شامل ہے ۔اور تمام حقائق عالم کو حاوی ہے اور وہ حق تعالیٰ کے لیے بلا تشبہ ایسا ہے ۔ جیسے آنکھ کی پتلی ۔ پتلی ہی سے دیکھا جاتا ہے ۔ اور اسی کو محل بصر کہتے ہیں ۔ اسی لیے اس خلقت جامع کا نام انسان رکھا گیا ۔ گویا کہ انسان ہی کے توسط سے حق تعالیٰ اپنی مخلوقات کو ملاحظہ فرماتا ہے ۔ اور اس پر رحم فرماتا ہے ۔اور اس کو وجو د عطا کرتا ہے ۔ کیونکہ مقصود تخلیق انسان ہی ہے ۔
پس حقیقت کلیہ انسانیہ با عتبار خارج اور افراد کے حدیث ہے ۔ اور باعتبار علم الٰہی کے ازلی و ابدی و دائمی ہے ۔ اور ایک ایسا کلمہ ہے جو فاصل و جامع یعنی تفصیلی بھی ہے اور جمالی بھی ۔
انسان کے وجود سے عالم تام و مکمل ہوا ۔ عالم میں انسان ایسا ہے جیسے انگشتری میں نگینہ ۔ یہ معلوم ہے کہ نگینے پر نقش و علامت شاہی کندہ ہوتی ہے ۔اسی نقش و علامت
سے بادشاہ اپنے خزانوں پر مہر کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان خلیفہ کہلاتا ہے ۔ خیال رکھو کہ آدم سے اور انسان سے مراد انسان کلی ۔ تجلی اعظم شان الوہیت ہے ۔ جس کے مظاہر انسان جزئی ہیں ۔ انسان ہائے جزئی میں بھی بعض مظہر ناقص ہیں ، ہر زمانے میں صرف ایک ہی مظہر تام ہوتا ہے ۔ جس کو غوث یا قطب زمان کہتے ہیں ۔ انسان سے خدائے تعالیٰ عالم اور خلق کی حفاظت کرتا ہے جس طرح کہ مہر شاہی سے خزائن