اسلام علیکم و رحمۃاﷲ وبرکۃ
پیار و محبت کے سلسلے کا نام ’’صوفی‘‘ہے ،جو سب سے پیا ر کر سکتا ہے اس کو صوفی کہتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ’’صوفی ‘‘ کب سے ہے؟میں کہتا ہوں جب سے محبت ہے تب سے ’’صوفی‘‘ ہے ۔’’صوفی‘‘ کوئی لمبا جبہّ ،لمبی ٹوپی پہننے والے کا نام نہیں ہے ۔کوٹ پینٹ میں بھی ’’صوفی ‘‘ہوسکتا ہے ۔’’صوفی ‘‘ دوسروں کو بدلنے کا نام نہیں بلکہ خود کو بدلنے کا نام ہے۔
’’صوفی‘‘ کا پیغام محبت ہے ،انسانیت ہے ،اس کا پرچار کرنے نہ جانے کتنے ہی ’’صوفی‘‘ دنیا بھر میں موجود ہیں۔اس سلسلے کی ایک کڑی جو سر زمینِ بیجاپور میں ہے ،جس کو لوگ آج ’’ پیر عادل ؔ بیجاپور ی ؒ ‘ ‘کے نام سے جانتے ہیں۔ جن کا مزارِ اقدس بیجاپور میں موجود ہے ان کے ہی جانشین خلیہ ء معظم ’’حضرت شیخ محمد عبدالرؤف شاہ قادری الچشتی افتخاری فہمی پیر ‘‘ہیں ۔جنہوں نے نہ جانے کتنے ہی بجھے دلو ں کوروشن کیا، راہ سے بھٹکے لوگوں کو راہِ ہدایت بتائی ۔خودی اور خدا کسے کہتے ہیں سمجھایا۔
یہ با ت سچ ہے کہ جب تک انسان خود سے پیا ر نہیں کرتا تب کت دوسروں سے پیا ر نہیں کر سکتا۔ خود سے پیار وہی کر سکتا ہے جو خود کو جانتا ہو ،پہچانتا ہو ۔
قصہّ ء لامحدود کا مختصر فسانہ ہے
لامکاں ناپنے کا آدمی پیمانہ ہے
جو خود کو جانتا پہچانتا ہے وہی خدا کو جانتا پہچانتا ہے ۔کیونکہ ’’ہر بنی ہوئی چیز بنانے والے کا پتہ دیتی ہے ‘‘جو خدا کو جانتا ہے وہی مخلوق سے پیار کر سکتا ہے کیونکہ
پہلا سبق ہے یہ کتابِ ہدیٰ کا
تمام انسان کنبہ ہیں خداکا
’’صوفی ‘‘ کا پہلا سبق ہی پیار ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بھی آپ کسی ’’صوفی فقیر ‘‘ کی مزار پر جاتے ہیں وہاں پھول ضرور ہوتے ہیں ،کیوں؟
کیونکہ پھول محبت کا اظہار ہے ۔پھول کی خوشبو کبھی یہ فرق نہیں کرتی کہ اس کی خوشبو سے کون معطر ہو رہاہے ۔ پھو ل کا مذہب ہی ’’صوفی ‘‘ کا مذہب ہے ۔
حضرت پیر فہمی محبت کے باغ کے وہ پھول ہیں جو کھلتے تو ہیں پر کھل کر مرجھاتے نہیں ہیں ،دنیا ان سے معطر ہوتی رہتی ہے ،جس میں محبت ہے وہ زندہ ہے ،جس میں محبت نہیں وہ مردہ ہے ۔ہزاروں مردوں کو حیاتِ جاویداں بخشنے کے لئے ’’حضرت پیر فہمی ‘‘ نے اپنی شاخیں نکالیں ،جس کی ہر شاخ پر پھو ل ہی پھول کھلے اور ایک وقت ایسا آئے کہ یہ دنیا پیار ومحبت ، سکون وامن کا باغیچہ نظر آئے ۔ آمین